Thursday, November 15, 2012

اپنا احتساب بھی عجب شےہے۔۔۔

 
پچھلے کئی سالوں سے میری ذات میں خود احتسابی کا دور چل رہا ہے۔۔ اللہ کی رحمت ہے۔۔  اتنی مار پڑ چکی ہے کہ میں مجبور ہوں کے اپنی کوتاہیوں کو جانچوں اور درست کرنے میں جتا رہوں۔۔۔ شاید زمانے میں رسوا نہ ہوتا تو شاید کبھی خود احتسابی کی طرف نہ آتا۔۔
 اپنا احتساب بھی عجب شےہے۔۔۔ خود انسان پر اپنے پردے کھلنے لگتے ہیں۔۔۔ وہ بت جو انسان دنیاکو دکھا رہا ہوتا ہے۔۔۔ اور خود بھی اس کو  سچا سمجھ رہا ہوتا ہے۔۔۔ وہ اس عمل سے ٹوٹ جاتا ہے ۔۔اور انسان کے سامنے اس کی اپنی اصل تصویر آ جاتی ہے۔۔۔ خود احتسابی  خود شناسی کراتی ہے اور خود شناسی مرض یا امراض کا پتہ دیتی ہے جو فرد کو لاحق ہوتے ہیں۔۔۔ جب مرض پتہ چل جائیں تو علاج سہل ہو جاتا ہے۔۔۔
بابے کہتے ہیں انسان کی ایک تو ظاہری شکل ہوتی ہے۔۔ اور ایک شکل اس کی مثالی ہوتی ہے۔۔ صاحب نظر مثالی شکل دیکھ کر اس فرد  کا علاج اور اس کے ساتھ تعلقات کی بنیاد رکھتے ہیں۔۔۔ میں آج اپنے آپ کو تو شاید نہیں سمجھ سکا لیکن یہ جان گیا ہوں کہ میں مثالی دنیا میں کیا شکل رکھتا ہوں۔۔۔
میں  ایک چیچک زدہ غلیظ  اور آوارہ کتا ہوں۔۔ ہاں میں ایک کتا ہوں ۔۔۔ مجھے  جگہ اور در بدلنے کی عادت ہے ۔۔ اسی لئے در بدلتے ہی بے مروت ہو جاتا ہوں۔۔۔ نئے در سے اس وقت تک وفاداری اور محبت رہتی ہے جب تک شفقت رہتی ہے ۔۔ جیسے ہی سختی آئی در سے اٹھے اور نئے در پر آ بیٹھے۔۔
صرف ایک چیز میری فطرت میں اچھی ہے اور وہ ہے میں احسان نہیں بھولتا۔۔۔ بے مروت رہتے ہوئے بھی احسان کا قرض یاد رہتا ہے ۔۔۔در بدل لیتا ہوں لیکن احسان یاد رکھتا ہوں۔۔ ہر شفقت  سے پیش آنے والے کی محبت شعور و لاشعور میں بسا لیتا ہوں۔۔۔
جو کتا کسی در کا نہیں ہوتا ۔۔۔اس کی عزت بھی نہیں ہوتی۔۔ جو کسی در پر بندھا ہو۔۔ آنے جانے والے اس سے ڈرتے ہیں۔۔ اس کے قریب آنے سے گھبراتے ہیں۔۔۔ مگر جو کتا آوارہ ہو اس کی قسمت صرف گالی اور پتھر ہیں۔۔  کتا تو آخرکار کتا ہی ہوتا ہے۔۔ لیکن  ایک کی  وفا داری  اور اسستقامت   اس کی عزت کا باعث بنتی ہے اور دوسرے میں وفا اور استقامت کی کمی اس کی ذلت کی باعث بنتی ہے۔۔

 شاہ امین الدین صابر با رضا

1 comment: